آجکل کرونا مرض کا بہت چرچا ہے جسکی وجہ سے پوری دنیا مر رہی ہے۔اِسکے شکنجے سے کوئی چھوٹا بڑا محفوظ نہیں ہے۔ بحثیت انسان کے میرے دماغ میں مختلف خیالات آتے ہیں جیسے کہ پہلے ڈینگی اب کرونا اور اِس سے پہلے جو وبائیں آتی رہیں ۔ عجیب بات یہ کہ ڈینگی صاف پانی کا وائرس ہے لیکن اُس کا زیادہ تر شکار براعظم ایشیا کے ممالک ہیں۔ عجیب بات ہے جن ممالک کی پہچان زیادہ بارشوں اور صاف پانی کی آبشاروں سے ہوتی ہے کیا ڈینگی کی اُن سے زیادہ دوستی ہے اور اب حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کرونا گندگی سے پیدا ہوتا ہے لیکن زیادہ تباہی یورپ میں ہو رہی ہے۔ عجیب سا تزاد ہے جسے عقلِ سلیم نہیں مانتی یہ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی پوری دنیا کی معادنیات کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت پہ قبضہ کرنا چاہتا ہے جو کہ مکمل تور پر ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ ایسا ممکن ہونے میں بہت سال درکار ہونگے یا پھر ایک سو صدیاں ۔
اور اگر یہ خُدا کی طرف سے آزمائش ہے تو پھر بھی انسانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ دُنیا میں جتنا بھی ظلم وستم ہو رہا ہے مسلم اُمہ پہ ہو رہا ہے لیکن کوئی آواز نہیں اُٹھاتا کیونکہ انھیں اپنے اپنے مفاد عزیز ہیں کسی کو تجارت کا مفاد کسی کو اسلحے کا مفاد کسی کو رُپے پیسے کا مفاد اور بہت سے مفاد ہیں جسکہ نتیجہ ہے فلسطین، روہنگیا، فلسطین، کشمیر اور بہت سے غریب ممالک۔ افسوس جن کے لئیے مسلم اُمہ بھی اکٹھی ہو کر نہیں بولتی۔آج وہ سوچیں ظلم کرنے والے اور ظلم دیکھنے والے یہ اُس کا زیادہ شکار ہیں اِس وائرس سے ۔ آج تمام ممالک اپنے ہاتھوں سے سب راستے اور تجارت روک رہے ہیں۔ کیا یہ مسلم اُمہ کے حق میں بولتے ہوئے نہیں روکے جا سکتے تھے۔ آج وائرس سے جان چھڑانے کے لئیے سب نقصان برداشت کر سکتے ہیں۔ کیا ظلم روکنے کے لئیے یہ نقصان برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔ سوچنے اور ندامت کا مقام ہے ظلم کرنے والوں کے لئیے بھی اور ظلم ہوتا دیکھنے والوں کے لئیے بھی جو خاموش تماشائی بن کر تماشا دیکھ رہے تھے۔ کیونکہ کچھ ممالک تو ظلم کرنے والوں کے گلے میں تمغے ڈال رہےتھے شاید اُنھے طلم کرنے پر شاباش دے رہے تھے۔ جان لو تمام مسلم اُمہ ایک بدن کی طرح ہے دیکھ آج کیسی تکلیف محسوس ہو رہی ہے اپنے اپنے بدن کی روک سکو تو روک لو۔ لیکن دیکھو اِس بیماری کا علاج بظا ہر تو بار بار ہاتھ اور منہ دھونا ہے۔ کیا مُسلم اُمہ کا خون کُفر کے ساتھ ساتھ اِن کے ہاتھوں پر نہیں۔ بے شک پسے پردہ حقیقت بہت بھیانک ہے جن کو مسلم اُمہ حسد اور تنگ نظری کو چھوڑ کر اور محبت کی ایک زنجیر بنا کر روک سکتے ہیں اِس سے نہ صرف تمام مسلم اُمہ بلکہ اُن انسانیت کو بھی فائدہ ہو گا جو حقائق نہیں جانتے۔یہ سوچنے کا مقام ہے خُدارا سوچئے اور انسانیت کو بچانے کے لئیے سیسا پلائی دیوار بن جائیں خُدا ہمیں اِس کی توفیق دے۔